پوچھا جو میں نے جان سے جانا پڑے گا کیا
جل کر کہا پھر اْس نے , بتانا پڑے گا کیا
اے چشم ِدوست میرے گریباں کی سمت دیکھ
وحشت کا بوجھ یوں بھی اٹھانا پڑے گا کیا
آخر کہاں چلا گیا دل سے نشاط ِ غم
اے زندگی تجھے بھی منانا پڑے گا کیا
کیوں کانپنے لگی ہے اچانک یہ روشنی
اب دوسرا چراغ جلانا پڑے گا کیا
اے آسماں بتا مرے مٹّی کہاں گئ
پھر اس کی رہ گزار جانا پڑے گا کیا
کم ہو چلی ہے لذّت ِ آزار اِن دِنوں
اک اور دل بدن میں بنانا پڑے گا کیا
آخر یہ اْس گلی میں چراغاں ہوا ہے کیوں
اپنا بھی دشت ہم کو سجانا پڑے گا کیا
بھیجے ہیں اْس نے لوگ مسیحائ کے لۓ
اب کوئ روگ دل کو لگانا پڑے گا کیا
ہر ہر قدم پر ٹوٹ رہی ہے انا مری
اْس کے بھی گھر سے لوٹ کے آنا پڑے گا کیا
اک پل کے سائبان میں جینے کے واسطے
سارا جہاں سمیٹ کے لانا پڑے گا کیا
محسن یہ اضطراب سْکوں بَن رہا ہے کیوں
... اک بار پھر سے اْس کو بھلانا پڑے گا کیا
0 comments:
Post a Comment